Ali Zaryoun Ki Shahyri - علی زریون کی شاعری


 میں جب وجود کے حیرت کدے سے مل رہا تھا 

مجھے لگا میں کسی معجزے سے مل رہا تھا 


میں جاگتا تھا کہ جب لوگ سو چکے تھے تمام 

چراغ مجھ سے مرے تجربے سے مل رہا تھا 


ہوس سے ہوتا ہوا آ گیا میں عشق کی سمت 

یہ سلسلہ بھی اسی راستے سے مل رہا تھا


خدا سے پہلی ملاقات ہو رہی تھی مری 

میں اپنے آپ کو جب سامنے سے مل رہا تھا 


عجیب لے تھی جو تاثیر دے رہی تھی مجھے 

عجیب لمس تھا ہر زاویے سے مل رہا تھا 


میں اس کے سینۂ شفاف کی ہری لو سے 

دہک رہا تھا سو پورے مزے سے مل رہا تھا


ثواب و طاعت و تقویٰ فضیلت و القاب 

پڑے ہوئے تھے کہیں میں نشے سے مل رہا تھا 


ترے جمال کا بجھنا تو لازمی تھا کہ تو 

بغیر عشق کئے آئنے سے مل رہا تھا 


زمین بھی مرے آغوش سرخ میں تھی علیؔ 

فلک بھی مجھ سے ہرے ذائقے سے مل رہا تھا


علی زریون


ادائے عشق ہوں پوری انا کے ساتھ ہوں میں 

خود اپنے ساتھ ہوں یعنی خدا کے ساتھ ہوں میں 


مجاوران ہوس تنگ ہیں کہ یوں کیسے 

بغیر شرم و حیا بھی حیا کے ساتھ ہوں میں 


سفر شروع تو ہونے دے اپنے ساتھ مرا 

تو خود کہے گا یہ کیسی بلا کے ساتھ ہوں میں


میں چھو گیا تو ترا رنگ کاٹ ڈالوں گا 

سو اپنے آپ سے تجھ کو بچا کے ساتھ ہوں میں 


درود بر دل وحشی سلام بر تپ عشق 

خود اپنی حمد خود اپنی ثنا کے ساتھ ہوں میں 


یہی تو فرق ہے میرے اور ان کے حل کے بیچ 

شکایتیں ہیں انہیں اور رضا کے ساتھ ہوں میں


میں اولین کی عزت میں آخرین کا نور 

وہ انتہا ہوں کہ ہر ابتدا کے ساتھ ہوں میں 


دکھائی دوں بھی تو کیسے سنائی دوں بھی تو کیوں 

ورائے نقش و نوا ہوں فنا کے ساتھ ہوں میں 


بہ حکم یار لویں قبض کرنے آتی ہے 

بجھا رہی ہے؟ بجھائے ہوا کے ساتھ ہوں میں


یہ صابرین محبت یہ کاشفین جنوں 

انہی کے سنگ انہیں اولیا کے ساتھ ہوں میں 


کسی کے ساتھ نہیں ہوں مگر جمال الہ 

تری قسم ترے ہر مبتلا کے ساتھ ہوں میں 


زمانے بھر کو پتا ہے میں کس طریق پہ ہوں 

سبھی کو علم ہے کس دل ربا کے ساتھ ہوں میں


منافقین تصوف کی موت ہوں میں علیؔ 

ہر اک اصیل ہر اک بے ریا کے ساتھ ہوں میں


علی زریون


سکوت شام کا حصہ تو مت بنا مجھ کو 

میں رنگ ہوں سو کسی موج میں ملا مجھ کو 


میں ان دنوں تری آنکھوں کے اختیار میں ہوں 

جمال سبز کسی تجربے میں لا مجھ کو 


میں بوڑھے جسم کی ذلت اٹھا نہیں سکتا 

کسی قدیم تجلی سے کر نیا مجھ کو 


میں اپنے ہونے کی تکمیل چاہتا ہوں سکھی 

سو اب بدن کی حراست سے کر رہا مجھ کو


مجھے چراغ کی حیرت بھی ہو چکی معلوم 

اب اس سے آگے کوئی راستہ بتا مجھ کو 


اس اسم خاص کی ترکیب سے بنا ہوں میں 

محبتوں کے تلفظ سے کر نیا مجھ کو 


درون سینہ جسے دل سمجھ رہا تھا علیؔ 

وہ نیلی آگ ہے یہ اب پتا چلا مجھ کو


علی زریون


چوم کر خاکِ درِ یار قدم دھرتا ہوں

جست بھر لوں تو اَبَد پار قدم دھرتا ہوں


اک غزالِ سُخن آثار و غزل شیفتہ ہوں

ماورائے رم و رفتار قدم دھرتا ہوں


مردِ جانباز کے ہوتے ہوئے مقتل ویران؟؟

آ مِرے یار کی تلوار ! قدم دھرتا ہوں


نقشِ پا چومتے ہیں تُرک و سمرقند نژاد

جب کبھی بر سرِادوار قدم دھرتا ہوں ! 


جس جگہ سر نہیں رکھنے کی اجازت اِن کو 

میں وہاں پر بھی دگر بار قدم دھرتا ہوں


گاہے گفتار ، گہے نعرہ و للکار کے ساتھ ! 

بر سرِ سینہ ء اغیار قدم دھرتا ہوں 


بر زمینِ دلِ ہر سرکش و دلکش بَدَنے !

صرف میں ہوں جو لگاتار قدم دھرتا ہوں


راہ خود منہ سے نہ کہہ دے کہ میں ہموار ہوئی 

پھر یہ کہنا کہ میں بے کار قدم دھرتا ہوں


خوش نصیبی! کہ در ایں راہِ جنوں ہم نَفَسَاں

ہمرہِ سرمد و عطار قدم دھرتا ہوں 


خاندانِ بنو ہاشم کی طرف سے اس بار 

تم نہیں ! میں صفِ انصار قدم دھرتا ہوں 


دشت کے خار و سب آزار مجھے جانتے ہیں 

میں یہاں دن میں کئی بار قدم دھرتا ہوں


یہ جو مجھ نقش کا شہرہ ہے ہر اک سمت علی !

میں بصد خوبی و معیار قدم دھرتا ہوں


علی زریون